بلاگ کے صفحات

August 19, 2014

نسواریات۔

ہمارے اوپر ایک زمانہ ایسا بھی گزرا ہے جب ہم بچے ہوا کرتے تھے اور ایک بہت مشہور کارٹون "پاپائی دی سیلر مین" بہت شوق سے دیکھا کرتے تھے۔پسندیدگی کی  ایک وجہ یہ بھی تھی، کہ وہ طاقت حاصل کرنے کے لئے پالک کھا لیتا اور بس پھر۔۔ اسکا کوئی دشمن اسکے آگے نہ ٹکتا تھا اور وہ انکی خوب دھلائی کیا کرتا تھا۔ ۔انہی دنوں کی بات ہے کہ ہم نے کچھ مزدوری کرنے والے حضرات کو دیکھا کہ جب وہ ادھ موئے ہونے لگتے تھے، تو کافی اندرونی قسم کی جیب سے ایک لفافہ نکالتے اور اس میں سے سبز گھاس کی شکل کی کوئی چیز نکالتے، ہاتھ میں اسے گوندتے، پھر ایک گولی بناتے اور پھر منہ میں رکھ لیتے۔ ہم بہت مدت تک یہی سمجھتے رہے کہ "پاپائی دی سیلر مین" کی طرح یہ بھی طاقت حاصل کرنے کے لئے پالک کی گولی بنا کر منہ میں رکھ لیتے ہیں۔۔۔۔ تصدیق کے لئے پوچھنے پر پتا چلا کہ انہوں نے اسکا نام نسوار رکھا ہوا تھا۔۔ ہم یہی سمجھے کہ ان کی زبان میں شائید پالک کو نسوار کہا جاتا ہے۔۔۔ ۔

اب ہوا کچھ یوں کہ جب گھر میں اماں نے آلو پالک بنائے جو اتفاق سے ہمیں پسند بھی تھے، تو ہم نے باآواز بلند اپنے علمی اضافے کے اعلان کے طور پر فرمایا کہ ۔۔۔۔"آج تو "آلو نسوار" بہت ہی مزے کا ہے" 
یہ سنتے ہی ابا جان کا نوالہ عین انکے منہ کے سامنے جا کر پتھر کا ہو گیا، اور ان کی آنکھیں ایسی ہوگئیں کہ عینک اور آنکھوں میں کوئی فرق دکھائی نہیں دیتا تھا۔۔ اور اماں کا منہ کھلا کا کھلا رہ گیا۔۔ اور آنکھیں انکے پکائے ہوئے "آلو نسوار" پر جم گئیں۔۔۔  ایسا لگ رہا تھا کہ وقت رُک گیا ہو، ہر چیز اپنی جگہ ساکت ہو گئی ہو۔۔۔ اور پھر چند سیکنڈ کے بعد ہی ایسا لگا جیسے کوئی فلم پھنس جانے کے بعد ایک دم تیزی سے فارورڈ ہو گئی ہو۔۔۔ یعنی ہم پر ہمارے والدین نے سوالوں کی بوچھاڑ کر دی، جو کچھ یوں تھے۔۔ 
تمہیں نسوار کا کیسے پتا چلا؟ 
کتنے دوست نسوار استعمال کرتے ہیں اور کونسی قسم کی ہوتی ہے؟ 
تم نہیں کھا تو نہیں لی؟ منہ کھولواور سنگھاؤ؟ ۔وغیرہ وغیرہ وغیرہ۔۔۔۔ 
بہرحال، کافی گھمبیر قسم کی تفتیش کرنے کے بعد انہیں ہماری معصومیت کا انداز ہوہی گیا۔۔۔ مگر ایک بات کا ہمیں بھی پتا چل گیا، کہ۔۔۔۔"پاپائی دی سیلر مین" کونسا "پالک "استعمال کرتا ہے جسکے بعد وہ یوں اپنے دشمنوں کی ٹھکائی لگا دیتا ہے۔۔بہرحال وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ تحقیق ہوتی گئی علمِ نسوار میں مزید اضافہ ہوا، جس میں سے کچھ آپ کی خدمت میں عرض کر رہا ہوں، تاکہ آپ بھی اس سبزی کے فوائد و نقصانات سے واقفیت حاصل کر سکیں۔ ممکن ہے کہ اگر آپ کچھ سائنسدان قسم کی چیز ہیں تو آپ کو تحقیق کے لئے ایک نیا میدان مل جائے۔۔ اور اگر نہیں ہیں تو اسی بہانے بن سکتے ہیں۔ 
آپس کی بات ہے۔۔ اس کی رنگت اسی مواد سے ملتی جلتی ہے جو جانوروں کو چارہ کھلا کرحاصل کی جاتی ہے، اور گاؤں میں نہ صرف کھیتوں کی زرخیزی میں کام آتی تھی ہے، بلکہ گاؤں کی عورتوں اسکی بڑی بڑی ٹکیاں (اوپلے) بنا کر دیواروں پر چپکاتی ہیں اور سوکھنے کے بعد ان کو جلا کر مزید فوائد حاصل کئے جاتے ہیں۔ ہم نے اس رنگت اور فوائد کا موازنہ کرنے کے بعد اندازہ لگایا کہ اس میں کس قدر توانائی ہے، جبھی تو تھکے ماندے لوگ، ایک چھوٹی سی گولی منہ میں رکھی کر بالکل نئے ہنڈا 125 کی طرح بھاگنے دوڑنے لگتے ہیں۔ 
"گواہوں کے بیانات اورسالہاسال کی تفتیش کے بعد یہ بات سامنے آئی ہے کہ یہ آپ کی نس پر ، بلکہ شائید ہر نس پر وار کرتی ہے،لہٰذا نسوار کہلاتی ہے۔" 
دیکھنے میں یہ کچھ یوں لگتی ہے گویا پودینے کی چٹنی کو ُسکھایا گیا ہو اور پھر اسے زنگ لگ گیاہو۔ اسکے ذائقے کے متعلق صرف وہی علماء بتا سکتے ہیں جو اسکا علم رکھتے ہیں۔اگر آپ کو کوئی ایسے صاحب ملیں، جن کا اوپر کا یا پھرنیچے کا مسوڑا سوجا ہوا محسوس ہو، اور اگر وہ ہمارے پٹھان بھائیوں میں سے بھی ہیں تو زیادہ قیاس یہی ہے کہ وہ دراصل نسوار چوس ہیں۔۔ مگر اب یہ قیاس آرائی دوسری اقوام میں بھی جا بجا دیکھنے میں آرہی ہے۔ اسلئے نسوار کے دھوکے میں ہر ایک کو پٹھان مت سمجھ لیجئے گا، مباداء آپ کو پنجابی، پٹھواری (پنجابی کی ایک گھمبیر قسم)، سرائیکی، بلوچی، سندھی وغیرہ میں گالیاں بھی وصول ہو سکتی ہیں۔ اور یقین کریں کہ یہ وہ لمحہ ہے جب آپ کو دوسری زبانوں سےلاعلمی پر شکر گزار ہونا چاہئیے۔۔ 
  
سنا ہے کہ مسوڑہ سُجا کر، نسوار چوس، اس سے جو رس حاصل کرتا ہے اس کے اثرات اتنے دور رس ہوتے ہیں کہ سوکھے سے سوکھا نسوار چوس ، بھی ایک بھاری بھرکم پہلوان کے برابر کام کرنے لگتا ہے۔۔ یہ بھی سننے میں آیا ہے کہ نسوار چوس حضرات روٹیاں بھی ڈھیروں کے حساب سے کھا جاتے ہیں۔ مگر ان کے سوکھے پن کو دیکھتے ہوئے یقین نہیں آتا۔۔ اور اگر نسوار چوس دیکھنے میں پہلوان جیسا لگتا ہو تو۔۔۔۔۔تواسکا مطلب ہے کہ وہ پیدائشی ایسا ہے یا اپنے کرتوتوں کی وجہ سے  ایسا ہو گیا ہے ورنہ نسوار کے فوائید میں کسی بھی تحقیق سے صحت مند ہونا ثابت نہیں کیا جا سکا۔

نوٹ: یہ علم ہم نے ان علماء سے حاصل کیا ہے جو دراصل اس علم کے ماہر ہیں اور انہی کی تجربات کی روشنی میں ہم نے یہی فیصلہ کیا تھا۔۔کہ ہم اس سے دور ہی اچھےکیونکہ ماہرین کے مطابق یہ دیکھنے میں یہ جس چیز سے ملتی جلتی ہے اورجسے اگر مٹی میں ملا دیا جائے تو زرخیزی میں کافی اضافہ ہو جاتا ہے، اور درخت اورفصلیں خوب پھلتے پھولتے ہیں،صرف اور صرف ایک ہی جانور کے ذریعے پیدا کی جاتی ہے۔یہ وہی جانور ہے جو چاہے جتنا بھی معصوم اور بے گناہ ہو، مگر گاؤں میں اکثر مجرماں کو اسی پر بٹھا کر اور منہ کالا کرکے پورے گاؤں میں پھرایا جاتا ہے۔ ۔۔ اور نسوار کے استعمال کندگان کو کبھی نسوار کی وجہ سے پھلتے پھولتے  تو کبھی نہیں دیکھا البتہ ان کے مسوڑے ہی سوجے نظر آئیں گے...اُمید ہے آپ کو پھلنے پھولنے میں اور سوجنے میں فرق معلوم ہوگا۔
احتیاطی نوٹ: ہر وہ شخض جس کا مسوڑہ سوجا ہو، ضروری نہیں کہ نسوار کا فین ہو، ہو سکتا ہے وہ طبیب ِدندان زدہ ہو۔ اور اگر وہ پھلا پھولا بھی دکھائی دے تو وہ بہت ممکن ہے کہ وہ باکسر قسم کی شے ہو کیونکہ مسوڑے کے مسائل باکسروں میں اکثر ایک دوسرے کو دئے جانے کا رواج عام پایا جاتا ہے۔۔۔ اور انہی سے ملتی جلتی قسم وہ ہے جس سے بروس لی کا تعلق تھا۔۔۔ مگر اس قسم  میں مسوڑوں کی سجاوٹ کم اور دانت توڑنے کا کا رواج زیادہ ہے، مگر یہ ایک الگ ڈسکشن ہے اسلئے زیادہ سوچنے کی ضرورت نہیں۔
اور ہاں آخری بات تو رہ گئی۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔اگر  آپ نسوار چوس ہیں، تو یہ مضمون آپ کے لئے نہیں ہے۔۔۔

از فرخ وحید۔
مکمل تحریر >>

August 13, 2014

اگر ہم کہیں اور وہ سمجھا دیں۔۔۔

مذھب کی تعلیمات میں سے ایک یہ چیز بھی بہت اہم ہے کہ یہ تعلیمات کہاں سے حاصل کر کے ہم تک پہنچائی جاتی ہیں۔ یہ جاننا، بطور خاص اسلئے بھی ضروری ہے کہ اصل ذریعے کی پہچان کی جائے اور اس بات پر نظر رکھی جائے کہ کوئی اصل تعلیمات میں اپنی مرضی کی چیزیں شامل کر کے ان کو آلودہ نہ کر دے اور اپنے مقاصد کے لئے استعمال نہ کرنے لگ جائے۔
بدقسمتی سے، اسلام سے پہلے کے مذاھب اور خود اسلام میں اس فتنے کو نہ روکا جا سکا اور نتجہ بڑے پیمانے پر فرقہ پرستی اور اسکے نتیجے میں پیدا ہونے والی بدامنی، بدنامی اور تباہی بخوبی دیکھی جا سکتی ہے۔ تکلیف دہ بات یہ ہے کہ ان فتنوں کی نشاندہی اسی مذھب میں بھی کی گئی ہے، مگر ان فتنوں کے ذمہ دار ان نشاندہیوں اور پیشن گوئیوں کو بھی اپنے اپنے فرقے کی مارکیٹنگ اور اپنی دکانداری چمکانے کے لئے استعمال کرتے نظر آتے ہیں۔
ایک اور مزے کی بات یہ کہ دوسرے مسالک اور مکاتب فکر پر دکانداری چمکانے اور فرقہ پرستی کی ترویج کا الزام لگانے والے خود بھی یہی کام کسی اور شکل کے لفافے میں لپیٹ کر کرتے نظر آتے ہیں۔ اسکی پہچان کے لئے اگر آپ ان کے نتائج پر غور کریں تو تقریباً تمام ہی مسالک اور مکاتب فکر کی فرقہ انگیزیوں کے نتائج ایک ہی جیسے ہے۔۔ سب سے مشترک بات مسلمانوں کا ایک دوسرے سے دور ہونا اور گروہ گروہ ہونا ہے۔۔۔ حالانکہ یہ سب جانتے ہیں کہ قرآن میں فرقہ فرقہ ہونے سے کیسے منع فرمایا گیا ہے اور خود احادیث میں بھی اس سے بچنے پر کتنا زور دیا گیا ہے۔۔، مگر پھر بھی یہ ان احکام کو دوسروں کی تکفیر اور تذہیک کرنے میں استعمال تو کرتے ہیں، مگر خود اس پر عمل پیرا نہیں ہوتے۔ کیونکہ یہ سادہ سی بات ہے کہ اگر مسلمان متحد ہوجائیں تو انکی ڈیڑھ اینٹ کی مسجدوں کو انکے خاص ناموں سے کون آباد کرے گااور یہ کس پر حکومت کریں گے۔۔۔۔ جی ہاں۔۔۔۔ یہ دراصل وہی کھیل ہے جسے ہم “تقسیم کرکے حکومت کرو” کی انگریزی کے مشہور محاورے ;

Divide and Rule

کے الفاظ سے جانتے ہیں۔۔۔  یہ وہ علماء اکرام ہیں جو مسلمانوں کو یہ تو بڑے زور و شور سے بتاتے ہیں کہ غیر مسلم تمہیں تقسیم کر کے تم پر حکومت کرتے ہیں ۔۔ مگر وہ یہ نہیں بتاتے کہ مسلک، مکاتب فکر اور اسی طرۓۓح کے دیگر خوبصورت ناموں کا استعمال کر کے یہ خود بھی مسلمانوں کو مختلف گروہوں میں تقسیم کئے ہوئے ہیں اور خود ان پر ایسے ہی حکومت کررہے ہیں جیسے یہ غیر مسلموں پر الزام لگاتے ہیں۔۔۔۔
اگر اس کی پہچان کرنی ہو، تو دور حاضر میں موجود مسلکوں، مکاتب فکر، سلاسل اور اسی طرح کی دیگر اصناف کے کام کرنے کا طریقہ دیکھ لیجئے، ان سب میں مشترک ایک بات واضح ملے گی کہ دوسروں سے کسی اختلاف کی بنا پر گروہ بندی کو جائز سمجھتے ہیں اور گروہ کا نام اتنا خوبصورت اور مقدس الفاظ کے استعمال سے رکھتے ہیں کہ عام مسلمان اس کے خلاف سوچنے سے بھی قاصر ہو جاتا ہے کہ مباداء کہیں یہ گناہ ہی نہ ہو۔۔ کیونکہ ان کے علماء نے انہیں ایسے فتاواجات دئے ہوتے ہیں جن کی رو سے انہیں باقاعدہ جہنم واصل کیا جاتا ہے اگر وہ اس مسلک وغیرہ کے خلاف کوئ تحقیق بھی کر سکیں۔۔۔
مکمل تحریر >>